لاڈلے اور جوان بیٹے کی میت کو دفنانے کے بعد جب والدہ کی ملاقات کورٹ میں اس مجرم سے ہوئی تو اس نے سب سے پہلے اسے پاس جا کر غور سے دیکھا اور پھر اسے گلے سے لگا لیا۔
یہی نہیں بلکہ عدالت میں بیان بھی دیا کہ مجھے آپ سے بیٹا بدلا نہیں چاہیے کیونکہ آپ بچے ہو اور مجھے کیا معلوم تھا کہ میرے بیٹے کی زندگی ہی اتنی تھی،اس کی موت بھی یوں ہی لکھی تھی۔
اگر تم مارے گئے تو تمہاری والدہ بھی میری طرح غم میں ڈوب جائے گی تو لہذٰا میں آپکو معاف کرتی ہوں ۔ ان الفاظ کو سننے کے بعد مجرم کی ماں اور کورٹ میں موجود تمام افراد رونے لگے کیونکہ اس قدر حوصلہ آج کل انسانوں میں کہاں ہوتا ہے ۔ اس جذباتی بیان کے بعد مجرم کی والدہ سے بھی گلے لگیں ۔
جنہوں نے پریشانی کے عالم میں ان کا شکریہ ادا کیا ۔ اب کی بار مجرم نے بھی بھری عدالت میں کہہ ڈالا کہ مجھ سے غلطی ہوئی ، آپ سب سے معافی مانگتا ہوں۔
بے شک دین اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو اس بات کا درس دیتا ہے کہ لڑائی جھگڑا نہیں کرنا چاہیے اوربدلے کی آگے انسان کو جلا دیتی ہے ، اس لیے معاف کر دینا چاہیے اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔