نمرہ نے بتایا کہ "شروع میں ڈاکٹر نے یہی کہا کہ سب نارمل ہے، لیکن 8 مہینے بعد اچانک آپریشن کا کہہ دیا اور سی سیکشن کے لئے 3 لاکھ روپے بھی لے لئے"
آپریشن کے ذریعے ڈیلیوری کی شرح میں اضافہ
اچانک خطرے کا بول کر آپریشن کر دینا صرف نمرہ کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ پاکستان میں تقریباً ہر دوسری حاملہ خاتون کے ساتھ یہی معاملہ ہورہا ہے۔ 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آپریشن کے ذریعے پیدائش کی شرح میں پچھلی ایک دہائی سے کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ 1990 تک یہ شرح 3.2 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 19.6 تک پہنچ گئی ہے۔
سی سیکشن میں کتنا خرچہ ہوتا ہے؟
ترقی یافتہ ممالک میں آخری وقت تک نارمل ڈیلیوری کے لئے کوشش کی جاتی ہے تا کہ بچے اور ماں کو طبی مسائل کا سامنا کم سے کم کرنا پڑے جبکہ پاکستان میں بیشتر ڈاکٹرز پیسے کمانے کے لئے حاملہ خواتین اور ان کے گھر والوں کو ڈرا کر آپریشن کے نام پر لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔ آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش میں80 ہزار سے 3 لاکھ تک کا خرچہ ہوسکتا ہے۔
سی سیکشن کے ممکنہ نقصانات
سی سیکشن پچے کی پیدائش کا ایسا طریقہ ہے جسے ماہرین اس صورت میں تجویز کرتے ہیں جب کوئی اور چارہ نہیں بچتا کیوں کہ اس سے ماں اور بچے دونوں کو خطرناک مسائل لاحق ہوسکتے ہیں، جن میں ڈیلیوری کے وقت عورت کے جسم سے خون کا بہت زیادہ اخراج، سوجن، سن کرنے کے لئے لگائے جانے والے انجیکشن کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی میں درد کے علاوہ بچے کو سانس لینے میں تکلیف اور غلطی سے جلد پر کٹ وغیرہ لگنا شامل ہیں۔
صرف ڈاکٹرز ہی نہیں بلکہ آج کل کچھ خواتین بھی جان بوجھ کر آپریشن سے بچہ پیدا کرواتی ہیں کیونکہ وہ نارمل ڈیلیوری کے درد کو برداشت کرنے سے ڈرتی ہیں، اگر انہیں پتہ چل جائے کہ یہ درد وقتی طور کا اور آپریشن کے مسائل ساری زندگی کے، تو وہ اپنا ارادہ شاید بدل لیں۔